برطانیہ میں مجدد کانفرنسیں
- Admin
- Jan 10, 2022
تحریر:پیرزادہ سردار احمد قادری (ایل ایل بی،ایل یل ایم)
(خطیب مسجد غوثیہ راچڈیل،لنکا شائر)
میری طرح بہت سے پاکستانیوں کی رائے شاید برطانیہ آنے سے پہلے یہ ہوکے برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد چونکہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اس لئے ان کو وہاں پر نہ تو کوئی حقوق حاصل ہوں گے اور نہ ہی ان کو وہاں مذہبی تقریبات آزادانہ طور پر منعقد کرنے کا موقع ملتا ہوگا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے، آج سے 22 سال پہلے جب پہلی مرتبہ میں نے یہاں کی سرزمین پر قدم رکھا تو میرے بھی خیالات تقریباً ایسے ہی تھے جو میں نے اوپر کی سطور میں بیان کئے ہیں لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اپنی آمد کے تیسرے روز ایک مذہبی کانفرنس میں شرکت کی جس کا عنوان تھا'' یا رسول اللہ کانفرنس''جس میں دوپہر سے لے کر شام تک درجنوں مقررین نے انگریزی استعمار کو للکارا اور ان بدبختوں کو کھری کھری سنائیں جو مبینہ طور پر انگریزی دور میں پروان چڑھے تھے اور جن کی وجہ سے ایک بدبخت نے شاہی مسجد لاہور میں ''یا رسول اللہ ''کا نعرہ لگانے والے ایک محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مار مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔خیر یہ تو قصہ ماضی ہے۔ان سطور لکھنے کا مقصد برطانیہ میں منعقد ہونے والی مجدد کانفرنسوں کی روائیداد بیان کرنے کا ہے، یوں تو حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے برطانیہ کے بڑے شہر اور ٹاؤن میں اجتماعات منعقد ہو چکے ہیں لیکن بالخصوص یہاں پر دو اہم اجتماعات کا تذکرہ کرنا مقصود ہے ان میں سے ایک اجتماع یار کشائر کے ایک قدیمی قصبے '' ہڈرز فیلڈ'' ہیں اور دوسرا اجتماع مڈلینڈ کے مرکز برمنگھم میں منعقد ہوا۔ان اجتماعات کا تذکرہ کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان اجتماعات کا آغاز حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری نے آج سے بیس سال پہلے کیا ت۔. بعد ازاں استاد محترم حضرت علامہ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی مدظلہ العالی کی انگلستان تشریف آوری کے بعد ان اجتماعات کا سلسلہ مختلف شہروں میں جاری رہتا ہے جہاں پر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور نظریے کے حوالے سے علمی اور فکری موضوعات پر مقررین اظہارِ خیال کرتے ہیں۔
ہڈرز فیلڈ اور برمنگھم کی کانفرنسوں کا اجمالی تعارف کرانے کا موقع یوں مل رہا ہے کہ میری خوش قسمتی تھی کہ ان دونوں اجتماعات میں مجھے نہ صرف شرکت کا موقع ملا بلکہ استاد محترم ڈاکٹر صدیقی مدظلہ العالی کے حکم کے تحت مجھے کچھ کہنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور دو قومی نظریہ...... ان دنوں ہر صبح تو علماء اکیڈمی کے لیکچروں میں شمولیت کرنا اور شام کو پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ایل ایل بی کے تعلیمی مراحل سے گزر رہا تھا۔
استاد محترم دوپہر کو وقت نکال کر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں اپنے دفتر میں مجھے طلب کر لیتے تھے اب میں ان کے روبرو بیٹھ کر اپنی تحقیق کے تازہ ترین ابواب ان کے گوش گزار کردیتا۔ انہیں کی مہربانی اور خصوصی توجہ کی وجہ سے یہ مقالہ '' مغلیہ دور سے شروع ہو کر قیام پاکستان کے حالات اور تحریک آزادی'' پر اختتام پذیر ہوا لیکن اس میں خصوصیت یہ تھی کہ تحریک تحفظ، دین مصطفیٰ سے لے کر ہر مرحلے پر فکر مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو مرکزی نقطہ بنایا گیا تھا۔استاد محترم کی خواہش اور محترم میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری دامت برکاتہم العالیہ کی سرپرستی کی وجہ سے میرا یہ مقالہ '' ماہنامہ'' نور اسلام'' کے مجدد الف ثانی نمبر میں نمایاں طریقے سے شائع ہوا بلکہ ایک خصوصی جلد صرف فقیر کے مقالے کے لیے مختص کی گئی۔اس طویل تمہید کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ میں مجدد کانفرنسوں کا باضابطہ آغاز محترم میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری اور بعد ازاں استاد محترم ڈاکٹر صدیقی کی آمد کے بعد ہوا اور انہوں نے مجھ سمیت دیگر احباب کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا اور مفکر مجدد کو عام کرنے کے مشن پر لگا دیا۔ برطانیہ میں تقریبا 20 لاکھ کے قریب مسلمان ہیں جن میں ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ پاکستانی، چھ لاکھ ہندوستانی، چار لاکھ بنگالی اور دو لاکھ عرب اور دیگر ممالک کے مسلمان ہیں۔ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں تقریبا ایک ہزار اسلامی ادارے ہیں جن میں تقریبا پانچ سو بڑی مساجد ہیں جبکہ اس کے علاوہ چھوٹے تعلیمی ادارے اور ٹیوشن سنٹر ہیں۔ برطانیہ میں عمومی طور پر مذہبی تقریبات ویک اینڈ یعنی ہفتہ اتوار کو ہوتی ہیں کیونکہ یہ دن ان تقریبات کے لئے زیادہ مناسب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہفتہ کی دوپہر سے لے کر اتوار کی شام تک تقریبا ہر ویک اینڈ پر کسی نہ کسی عنوان سے برطانیہ کے بڑے شہروں کی مساجد میں تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔پاکستانی مسلمانوں کی زیادہ تر تعداد آزاد کشمیر اور بالخصوص میرپور سے آئی ہوئی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو منگلا ڈیم کے متاثرین میں سے تھے۔ان کی دل جوئی اور ان کی مالی اعانت کے جذبے کے تحت صدر ایوب کی حکومت نے انہیں فراخ دلی سے پاسپورٹ جاری کئے اور انہوں نے برطانیہ آکر روزگار تلاش کر لیا اور اب ان کی تیسری اور چوتھی نسل یہاں آباد ہے اور یہ لوگ خوشحال ہو گئے ہیں۔ان کے زیر انتظام اہلسنت و الجماعت کی اکثر مساجد ہیں۔یہ لوگ صحیح العقیدہ اور اولیاء کرام کی محبت سے سرشار ہیں ان کے ہاں حضرت عارف کشمیر میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ آف کھڑی شریف کے کلام کے حوالے سے اجتماعات ہوتے رہتے ہیں۔یہ لوگ فکر مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ باخبر رہتے ہیں۔ان میں سے اکثر کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے ہے اور اس حوالے سے یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی سے تو واقف اور آشنا ہیں لیکن مجدد کانفرنسوں اور عرس مجدد کی وجہ سے اب یہ لوگ اس پس منظر سے بھی آگاہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اکبر کے خود ساختہ دین الٰہی کے خلاف آواز حق بلند کی تھی۔ آج سے 21 سال پہلے جب میں تازہ تازہ انگلستان آیا تھا، حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری صاحب نے برطانیہ میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے تقریبات کا آغاز کیا۔انہوں نے یارک شائر کے شہر راچڈیل میں جو کہ مانچسٹر کے نواح میں واقع ہے۔حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے عرس کا اہتمام کیا۔ اس کی اچھے اور موثر انداز میں پبلسٹی کی گئی تھی یہ راچڈیل کو سنہری جامع مسجد میں منعقد ہوا تھا۔سنہری مسجد کے نام سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سنہرے رنگ کی کوئی مسجد ہے۔ دراصل اس شہر میں جماعت اسلامی والوں کی ایک مسجد '' نیلی مسجد'' کے نام سے قائم ہے۔غالباً یہ نام استنبول کی نیلی مسجد کے اعتبار سے رکھا گیا ہے۔سنہری مسجد کا نام رکھنے کی وجہ پوچھنے کے باوجود مجھے واضح طور پر کوئی نہیں سمجھا سکا۔بہرحال اس عرس مبارک کے انعقاد کیلئے میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری مدظلہ العالی کی ذاتی محنت اور ان کے خلوص نے اہم کردار ادا کیا۔2004ء اور 2005ء میں ہڈرز فیلڈ اور برمنگھم میں ہونے والی متعدد کانفرنسوں کی روح رواں اور نمایاں شخصیت ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کی تھی۔ہڈرز فیلڈ کی مسجد رضا ہالی فیکس روڈ پر ہڈرز فیلڈ ایک اہم اور مرکزی ٹاؤن ہے جس کے نواح میں ہالی فیکس، ڈیوز سری اور پاکستانیوں کے حوالے سے مشہور عالم شہر بریڈفورڈ بھی زیادہ دور نہیں ہے۔یہاں پر مسجد رضا کے خطیب مولانا حیدر علی مجاہد نقشبندی ہیں جن کا آستانہ عالیہ شرقپور شریف سے خصوصی تعلق ہے۔ اجتماع کے حوالے سے یہ ایک بھرپور ہجوم تھا۔ نماز ظہر سے لے کر عصر تک تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کا اس میں کلیدی خطاب تھا جس میں انھوں نے ان حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی جن کی وجہ سے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ظالم و جابر بادشاہ کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں انہیں پابند سلاسل ہونا پڑا اور جیل جانا پڑا۔ اس اجتماع میں عوام الناس کے علاوہ علماء کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی اور ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کے بصیرت افروز خطاب سے مستفید ہوئے۔ اس حقیقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ تقابل ادیان اور تاریخ مسلمانان ہند کے حوالے سے ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی استاذالعلماء اساتذہ ہیں۔ برطانیہ میں یہ بات خاص طور پر نوٹ کی گئی کہ جس اجتماع میں ڈاکٹر صدیقی صاحب کا خطاب ہوتا ہے علماء کثرت سے اس میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں کہ ان کا علمی اور فکری خطاب توجہ اور انہماک سے سنتے ہیں کیونکہ موضوعات ڈاکٹر صدیقی کی تحقیق کا مرکز ہیں۔ہمارے علماء اُن سے اس قدر آشنا نہیں ہیں جس قدر ان کو ہونا چاہیے تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ تقابل ادیان کے مضمون کو درس نظامی کے آج کل کے مروجہ نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے اس کو ضرور شامل ہونا چاہیے۔ بہر حال ہڈرز فیلڈ کی مجدد کانفرنس کو ایک کامیاب اور نتیجہ خیز کانفرنس قرار دیا جاسکتا ہے اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس کانفرنس کو اردو اور انگریزی میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح حیات اور ان کے کارناموں پر مشتمل کتابیں مفت تقسیم کی گئیں۔ نوجوان رضاکار اس سلسلے میں کافی ایکٹو تھے۔تمام شرکاء کے لیے پرتکلف کھانے کا اہتمام بھی تھا۔ میں 2005ء کی برمنگھم کی مجدد الف ثانی کانفرنس حضرت مجدد الف ثانی سنٹر میں منعقد ہوئی میں شامل تھا۔ برمنگھم جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے مڈلینڈ کا مرکزی شہر ہے۔برطانیہ کا اہم ترین صوبہ انگلینڈ ہے۔پاکستان کے لوگ انگلینڈ کو ہی برطانیہ سمجھتے ہیں۔ انگلینڈ کو برطانیہ سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی '' پنجاب'' کو ہی پاکستان سمجھے۔ دراصل انگلینڈ برطانیہ کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اُس کی اپنی شناخت اور تاریخی پہچان ہے، انگلینڈ کے وسط میں نیو علاقہ ہے اس کو '' مڈلینڈ'' کہتے ہیں یعنی وسطی خطہ۔
صدر مقام برمنگھم ہے جس کے اندر اور گردونواح میں تقریبا اہلسنت والجماعت کے پچاس کے قریب اسلامی ادارے اور مراکز ہیں۔ یہاں پر یورپ کی بہت بڑی جامع مسجد ہے جسے جامع مسجد گھمکول شریف کہا جاتا ہے۔یہ سلسلہ نقشبندیہ کے ایک شیخ طریقت '' زندہ پیر'' کے خلفاء اورمریدین نے قائم کی ہے۔ یہاں پر 5 ہزار لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں یہاں ہر سال جماعت اہلسنت برطانیہ کے زیراہتمام '' بین الاقوامی سنی کانفرنس'' کا انعقاد ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی سینٹر ہمارے ایک رفیق محترم اور جماعت اہلسنت کے موجودہ امیر مولانا غلام رسول آف چکسواری کے زیرانتظام قائم ہے۔ مولانا غلام رسول اور ان کے جواں صاحبزادے حافظ محمد سعید مکی دینی مسلکی اور فکری تحریکوں میں ہمیشہ متحرک اور فعال ہوتے ہیں۔جماعت اہلسنت برطانیہ اور اہل سنت کی تنظیمی مرکزوں میں ان کا کردار قابل فخر ہے، مجدد کانفرنس برمنگھم کے انعقاد میں بھی مرکزی کردار ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی مدظلہ العالی کا تھا۔وہ اپنی علالت کے باوجود طویل سفر کرکے مانچسٹر سے برمنگھم تشریف لائے تھے مگر خرابی صحت کی وجہ سے زیادہ خطاب نہ فرماسکے اور ازراہ کرم مجھے مرکزی خطاب کی سعادت نصیب ہوئی اس فقیر نے تقریباً ایک گھنٹے کے خطاب میں اردو اور انگریزی میں ان اثرات پر گفتگو کی جو فکر مجدد اور تحریک مجدد کے نتیجے میں مرتب ہوئے اور جن کے نتیجے میں قیام پاکستان کی تحریک کامیاب ہوئی۔استاذ محترم نے میری تقریر کی خوبصورت انداز میں تعریف کی اور اسے سراہا۔حاضرین کے حوالے سے اجتماع بھی بڑا حوصلہ افزا تھا، شرکاء کانفرنس کے لیے منتظمین کی طرف سے کھانے کا اہتمام تھا۔ کھانے کی نشست میں سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔اللہ تعالی ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی اور میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری کو دراز عمر اور صحت کاملہ عطا فرمائے تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے اور فکر مجدد کو عام کرنے کی تحریک آگے بڑھتی رہے ۔آمین